Sunday 9 December 2012

وزیر خارجہ کا دورہِ یورپ اور پاکستان

عمران چوہدری برسلز
یورپ کے ساتھ پاکستان کے اور پاکستان کے ساتھ یورپ کےبہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ معاشی معاملات میں آزاد تجارتی پیکیج ہو یا جی ایس پی پلَس، دفاعی معاملات میں آلاتِ حرب کی ترسیل ہو یا ناٹو افواج کی خِطے میں موجودگی ، پاکستان کی جغرافیائی صورتِ حال ہویا اس کیفیت میں یورپی ممالک کے مفادات کا تحفظ، ایران کی ہمسائیگی میں یورپی لابی کا پاکستان ہو یا چین کی دوستی کا بھرم رکھنے کے ساتھ امریکہ نوازی کا کردار،ہندوستان کے یورپ کے ساتھ وسیع المفاداتی مراسم کی موجودگی میں پاکستان کی اشک شوئی کی خواہش ،پاکستان کا داخلی امن ہو یا ساری دنیا میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ، جہادی تنظیموں کی پیدا وار ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا اہم کردار، گویا بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کی بنا پر یورپی یونین اور ناٹوکے لئے پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے معزول ہونے سے اب تک وزیر خارجہ کی سطح پر پاکستان نے یورپ سے کوئی مؤثر رابطہ نہیں رکھا۔ جس کی بہت ضرورت تھی۔ اب وزیر خارجہ، سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی جو بہت منجھے ہوئے تجربہ کار سفارت کار رہے ہیں، ان کے دور میں یورپ کے ساتھ معاملات خاصے بہتر ہوتے جا رہے تھے، اور پھرپاک افواج کے سربراہ جنرل کیانی جو اپنی وسعت نظری اور معتدل مزاجی کے باعث عوام اور دانشوروں میں مقبول ہیں کا دورہِ برسلز دیر سے سہی لیکن بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورہ میں ان کی ملاقاتیں دنیا بھر کی اہم ترین شخصیات سے طے تھیں۔ ناٹو کے ہیڈ کوارٹر میں سیکریٹری جنرل راموسن، ہلیری کلنٹن اور بیلجئم کے وزیر خارجہ سے ملاقاتوں میں جہاں پاکستان کے خطہ میں اہم کردار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں پر ستایش کی گئی وہاں افغانستان سے 2014میں ناٹو افواج کے انخلا ء کے بعد علاقائی صورت حال میں پاکستان کے تحفظات پر بھی غور کیا گیا۔ اور راسموسن اور کلنٹن نے یقین دہانی کروائی کہ پاکستان کے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا ۔ سیکریٹری راسموسن نے حِنا ربانی کھر کی دعوت پر پاکستان کے دورہ کی دعوت کو بھی قبول کیا جس کے وقت کا تعین بعد میں کیا جائے گااو ر یہ بھی طے کیا گیا کہ اسلام آباد کے ساتھ ناٹو کے مراسم اور گہرے کرنا ہونگے تاکہ رفاقتِ کار میں بہتری لائی جا سکے۔
جنرل کیانی نے بھی برسلز میں یورپی یونین کی سیاسی و عسکری کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں افغانستان کی بحالی اور تعمیرِ نو میں اپنے کردار کی اہمیت کو واضح کیا اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سیکیورٹی کے خدشات اور امکانات پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ انہوں نے یورپی یونین اور ناٹو دونوں اداروں میں پاکستان کی سِول اور عسکری قیادت کے افغانستان کے سیاسی قائدین کی راہنمائی اور ہر ممکنہ مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا اور بتایا کہ یہ سب ان دونوں اداروں یورپی یونین اور ناٹوکے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ ان کے اس دورہ میں افغانستان کا مسئلہ سرِ فہرست رہا۔
کیتھرین ایشٹن کے علاوہ وزیر خارجہ نے یورپی ٹریڈ کمیشن کے سربراہ کارل ڈی گُشت کے ساتھ بھی میٹنگ کی جو پاکستان کی جیایس پی پلس کی درخواست کے منظور ہونے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گو یورپ کے موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے پرتگال، اٹلی اور یونان جو ٹیکسٹائل کی صنعت میں اپنے وجود کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بہت بڑی رکاوٹ ہے اس کے باوجود پاکستان کو 72ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے یورپ بھی کی منڈی میں ٹیکس فری تجارت بہت بڑا معرکہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جی ایس پی پلس کے حوالے سے بات پر ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے ملالہ یوسف زئی اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں تند و تیز سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ گو وزیرِداخلہ نے سفارتی چابق دستی سے حالات کو سنبھالے رکھا لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت کو انسانی حقوق کے ان علمبرداروں کو مطمعن کرنے اور ان سے مفادات حاصل کرنے کے لئے اقلیتوں کو تحفظ دینا لازمی ہے۔
لاقانونیت اور قتل و غارت گری کے جو واقعات پاکستان میں ہو رہے ہیں اس کے پاکستان کے تشخص پر بہت بُرے اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔خاص طور پر کراچی کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے۔ ہر روز 10کی اوسط سے نہتے شہریوں کی لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ کراچی کے علاوہ بھی ملک کے دیگر حصوں میں بم دھماکے اور دہشت گردی جہاں پاکستانی شہریوں کے لئے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کر رہی ہے وہاں بین الاقوامی اداروں اورسرمایہ گذاروں کے لئے بھی تشویش کا باعث ہے۔ اب جہاں پاکستان کے عسکری، سیاسی کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی ماضی میں کی گئی غلطیوں پر نادم ہیں اور اصلاحِ احوال کرنا چاہتے ہیں وہاں پاکستان کے مذہبی قائدین کو بھی چاہئے کہ عدم برداشت کے رویئے کو ختم کرتے ہوئے اخوت اور رواداری کی تعلیمات کو فروغ دیں اور دیگر اداروں کے ساتھ مِل کر ملک کے وسیع تر مفادکے لئے ہوش کے ناخن لیں۔
پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا ہے شائد ہی کوئی ایسا وقت ہو جب ہم یہ کہہ سکیں کہ پاکستان میں امن ہے، سیاسی استحکام ہے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، معاشی ترقی ہو رہی ہے، عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں، پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمسائے ممالک سے تعلقات بہترین ہیں یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی ریاست کے معروضی حالات کبھی بھی اس قدر آئیڈیل نہیں رہے کہ کہا یہ سب کچھ کہا جا سکے البتہ حکمران اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ایسے اقدامات کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اپنے راستوں کا تعین کر لیتے ہیں اورایک ایک قدم آگے بڑہتے رہتے ہیں ۔ اب وہ وقت آ گیا ہے جب یہ فیصلہ کرنا ہوگا اور اجتماعی مفادات پر ذاتی مفاد کو قربان کرنا ہوگا۔مستقل بنیادوں پر خارجہ پالیسی کے خطوط کا تعین کر نا ہوگا۔دو سال بعد ترقی پسند، دِلچسپ گفتگو کی ماہراور مدِ مقابل کو مسخر کر لینے والی وزیرِ خارجہ حِنا ربانی کھر، معاملہ فہم و مدبر جنرل کیانی اور جہاں دیدہ و تجربہ کار سیکریٹری خارجہ سید جلیل عباس جیلانی جیسی شخصیات کے اس دورہ کے مثبت اثرات کو قائم رکھنے کے لئے اِن بین الاقوامی اداروں کے ساتھ باقائدہ اور مستقل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا ہوگا ۔

No comments:

Post a Comment